EN हिंदी
سینہ صافی کی ہے جسے عینک | شیح شیری
sina-safi ki hai jise ainak

غزل

سینہ صافی کی ہے جسے عینک

سراج اورنگ آبادی

;

سینہ صافی کی ہے جسے عینک
اس کوں دیدار یار ہے بے شک

صفحۂ دل کوں داغ کی کر مہر
عشق کے شاہ نے دیا دستک

رہزن عقل سیں نہیں وسواس
ہوں حمایت میں عشق کی جب تک

بوالہوس سوز دل کوں کیا جانے
نہ جلے ہرگز آگ میں ابرک

غیر کا نقش غیر نقش نگار
صفحۂ دل ستی کیا ہوں حک

شور ہے بس کہ تجھ ملاحت کا
دل ہمارا ہوا ہے کان نمک

گر جلا چاہتا ہے مثل سراجؔ
اے دل اس شعلہ رو کی دیکھ جھلک