سیم تن گل رخوں کی بستی ہے
یہ بدلتی رتوں کی بستی ہے
کون سمجھے سکوت کی باتیں
شہر خاموشیوں کی بستی ہے
یہ لکیریں غموں کے رستے ہیں
یہ ہتھیلی دکھوں کی بستی ہے
زندگی تک زکوٰۃ ٹھہرا دی
یہ میرے رازقوں کی بستی ہے
آسماں کی طرح ہے ساتھ کوئی
ہجر بھی قربتوں کی بستی ہے
وہ تلاطم شعار کیا جانے
جھیل بھی پانیوں کی بستی ہے
عقل تفریق کا تماشا ہے
آگہی فاصلوں کی بستی ہے
جسم پابند گل سہی عابدؔ
دل مگر وحشتوں کی بستی ہے
غزل
سیم تن گل رخوں کی بستی ہے
اصغر عابد