سیم و زر چاہے نہ الماس و گہر مانگے ہے
دل تو درویش ہے الفت کی نظر مانگے ہے
جب غزل مجھ سے کوئی مصرعۂ تر مانگے ہے
کاوش فکر مرا خون جگر مانگے ہے
دل کو ہے عافیت انجمن گل کی طلب
زندگی دشت مغیلاں کا سفر مانگے ہے
مجھ کو لے جائے جو انجانے دیاروں کی طرف
میری آوارہ مزاجی وہ ڈگر مانگے ہے
اپنے ماحول سے ہر شخص ہے مائل بہ فرار
کوئی بیزار ہے گھر سے کوئی گھر مانگے ہے
تھے جو رنگینئ دامان نظر کا ساماں
دیدۂ شوق وہی شام و سحر مانگے ہے
کل بھی جاں باز ہی کرتے تھے نگہ داریٔ حق
یہ جنوں آج بھی نذرانۂ سر مانگے ہے
ہو جہاں عیب شماری ہی پرکھ کا مفہوم
صابر اس شہر میں کیا داد ہنر مانگے ہے
غزل
سیم و زر چاہے نہ الماس و گہر مانگے ہے
نوبہار صابر