EN हिंदी
سدرۃ الوصل کے سائے کا طلب گار ہوں میں | شیح شیری
sidrat-ul-wasl ke sae ka talabgar hun main

غزل

سدرۃ الوصل کے سائے کا طلب گار ہوں میں

وقار خان

;

سدرۃ الوصل کے سائے کا طلب گار ہوں میں
تپش ہجر میں برسوں سے گرفتار ہوں میں

جا کسی اور کو جا دھمکیاں دے مارنے کی
جب سے میں پیدا ہوا تب سے سر دار ہوں میں

میرا پیغام بھلا تیغ کہاں روکے گی
حاکم وقت کو بتلاؤ قلمکار ہوں میں

میں نے تو رب کو بھی پوجا ہے اور اس یار کو بھی
واعظا تو ہی بتا کس کا گنہ گار ہوں میں

منزل زیست کہاں منزل مقصود وقارؔ
اک ثریائے محبت کا طلب گار ہوں میں