شعور ذات تھوڑا سا دل ناداں میں رکھتے ہیں
جمال آگہی جہل خرد افشاں میں رکھتے ہیں
چمن کیسا بیاباں کیا سمٹ آئے گی یہ دنیا
جنوں کے دم سے اتنی وسعتیں داماں میں رکھتے ہیں
نظر کے سامنے رہتا ہے عکس گردش دوراں
ہم آئینہ کو دل کے روزن زنداں میں رکھتے ہیں
ہجوم غم میں یادوں کے نہاں خانے مہک اٹھے
شگوفے لالہ زاروں کے دل ویراں میں رکھتے ہیں
ہمارے سوز دل سے نور برساتی ہیں وہ آنکھیں
ہم اپنی شمع طاق ابروئے جاناں میں رکھتے ہیں
ہماری ہر نظر ان کی نظر میں ڈوب جاتی ہے
ہم اپنا تیر ان کے تیر کے پیکاں میں رکھتے ہیں
کوئی دستک کوئی آہٹ کوئی جھونکا کوئی خوشبو
فریدیؔ دل کو بس زندہ اسی ارماں میں رکھتے ہیں
غزل
شعور ذات تھوڑا سا دل ناداں میں رکھتے ہیں
مغیث الدین فریدی