EN हिंदी
شعور کیف و خوشی ہے ذرا ٹھہر جاؤ | شیح شیری
shuur-e-kaif-o-KHushi hai zara Thahr jao

غزل

شعور کیف و خوشی ہے ذرا ٹھہر جاؤ

شوکت پردیسی

;

شعور کیف و خوشی ہے ذرا ٹھہر جاؤ
وفور غم میں کمی ہے ذرا ٹھہر جاؤ

نتیجہ جہد مسلسل کا آگے کیا ہوگا
محل فکر یہی ہے ذرا ٹھہر جاؤ

کشاکش غم دوراں میں زندہ رہنے کی
تمہی سے داد ملی ہے ذرا ٹھہر جاؤ

یہ بات تم سے کوئی اور کہہ نہیں سکتا
یہ بات دل نے کہی ہے ذرا ٹھہر جاؤ

تمہارے جانے کے احساس نے جو بخشا ہے
وہ زخم تازہ ابھی ہے ذرا ٹھہر جاؤ

یہ رات صرف مہ و کہکشاں کی رات نہیں
یہ رات تم سے سجی ہے ذرا ٹھہر جاؤ

زباں کلام کی لذت سے کیوں رہے محروم
نظر نظر سے ملی ہے ذرا ٹھہر جاؤ

پھر اب نہ تم سے جو ہم مل سکے تو کیا ہوگا
حیات سوچ رہی ہے ذرا ٹھہر جاؤ

چمن سے دور نشیمن کی فکر کیا کہ ابھی
تڑپ کے برق گری ہے ذرا ٹھہر جاؤ

طلسم عیش تمہاری قسم نہیں ٹوٹا
فریب خواب وہی ہے ذرا ٹھہر جاؤ

علاج گردش ایام کے لیے شوکتؔ
تمام عمر پڑی ہے ذرا ٹھہر جاؤ