EN हिंदी
شروع عشق میں لوگوں نے اتنی شدت کی | شیح شیری
shuru-e-ishq mein logon ne itni shiddat ki

غزل

شروع عشق میں لوگوں نے اتنی شدت کی

اظہر عنایتی

;

شروع عشق میں لوگوں نے اتنی شدت کی
کہ رفتہ رفتہ کمی ہو گئی محبت کی

یہ کارگاہ ذہانت ہے اس میں چھوٹے کیا
بڑے بڑوں نے یہاں پر بڑی حماقت کی

جہاں سے علم کا ہم کو غرور ہوتا ہے
وہیں سے ہوتی ہے بس ابتدا جہالت کی

جو آدمی ہے تلاش سکوں میں صدیوں سے
اسی نے کر دی یہاں انتہا بھی وحشت کی

پرانے لوگوں کو ہر دور میں رہا شکوہ
نئے دماغوں نے ہر عہد میں بغاوت کی

دکھائی دیتا نہیں اپنا موم ہو جانا
شکایتیں ہیں ہمیں دھوپ سے تمازت کی

اسی لیے تو اندھیرے میں آج بیٹھے ہیں
کہ ہم نے اپنے چراغوں کی کب حفاظت کی