شمار سبحہ مرغوب بت مشکل پسند آیا
تماشاۓ بہ یک کف بردن صد دل پسند آیا
بہ فیض بے دلی نومیدی جاوید آساں ہے
کشایش کو ہمارا عقدۂ مشکل پسند آیا
ہوائے سیر گل آئینۂ بے مہری قاتل
کہ انداز بہ خوں غلتیدن بسمل پسند آیا
روانی ہاۓ موج خون بسمل سے ٹپکتا ہے
کہ لطف بے تحاشا رفتن قاتل پسند آیا
اسدؔ ہر جا سخن نے طرح باغ تازہ ڈالی ہے
مجھے رنگ بہار ایجادی بیدل پسند آیا
سواد چشم بسمل انتخاب نقطہ آرائی
خرام ناز بے پروائی قاتل پسند آیا
ہوئی جس کو بہار فرصت ہستی سے آگاہی
برنگ لالہ جام بادہ پر محمل پسند آیا
غزل
شمار سبحہ مرغوب بت مشکل پسند آیا
مرزا غالب