شکر کو شکوۂ جفا سمجھے
کیا کہا میں نے آپ کیا سمجھے
ہم تری بات ناصحا سمجھے
کوئی سمجھے ہوئے کو کیا سمجھے
مرض الموت کو شفا سمجھے
درد کو جان کی دوا سمجھے
اس تڑپنے کو مدعا سمجھے
دل بد خو تجھے خدا سمجھے
کر دیے اک جہاں کے بت خود بیں
اے سکندر تجھے خدا سمجھے
شعلہؔ کل ہی تو مے کدے میں تھے
آج تم کس کو پارسا سمجھے
غزل
شکر کو شکوۂ جفا سمجھے
شعلہؔ علی گڑھ