EN हिंदी
شکر کی جا ہے کہ پستی میں یہیں تک پہنچے | شیح شیری
shukr ki ja hai ki pasti mein yahin tak pahunche

غزل

شکر کی جا ہے کہ پستی میں یہیں تک پہنچے

جگدیش سہائے سکسینہ

;

شکر کی جا ہے کہ پستی میں یہیں تک پہنچے
آسماں سے جو گرے ہم تو زمیں تک پہنچے

ہے یہ تقدیر کی خوبی کہ نگاہ مشتاق
پردا بن جائے اگر پردہ نشیں تک پہنچے

جام و مینا کی قسم ہستئ صہبا کی قسم
بادہ کش ایک ہی لغزش میں یقیں تک پہنچے

ایسی تقدیر کہاں ہے کہ نسیم کوئے دوست
بھول کر راہ کسی خاک نشیں تک پہنچے

کر چکا روئے زمیں کا جو بشر کام تمام
یہ تمنا ہے کہ اب چرخ بریں تک پہنچے