شکر کی جا ہے کہ پستی میں یہیں تک پہنچے
آسماں سے جو گرے ہم تو زمیں تک پہنچے
ہے یہ تقدیر کی خوبی کہ نگاہ مشتاق
پردا بن جائے اگر پردہ نشیں تک پہنچے
جام و مینا کی قسم ہستئ صہبا کی قسم
بادہ کش ایک ہی لغزش میں یقیں تک پہنچے
ایسی تقدیر کہاں ہے کہ نسیم کوئے دوست
بھول کر راہ کسی خاک نشیں تک پہنچے
کر چکا روئے زمیں کا جو بشر کام تمام
یہ تمنا ہے کہ اب چرخ بریں تک پہنچے
غزل
شکر کی جا ہے کہ پستی میں یہیں تک پہنچے
جگدیش سہائے سکسینہ