EN हिंदी
شجاعت کی مثالیں قبر کے پتھر میں رکھی ہیں | شیح شیری
shujaat ki misalen qabr ke patthar mein rakkhi hain

غزل

شجاعت کی مثالیں قبر کے پتھر میں رکھی ہیں

خواجہ ربانی

;

شجاعت کی مثالیں قبر کے پتھر میں رکھی ہیں
ہماری ساری شمشیریں عجائب گھر میں رکھی ہیں

ہوا کی دشمنی سے حوصلے ٹوٹے نہیں اس کے
اڑانیں تو پرندے کے شکستہ پر میں رکھی ہیں

جسے چاہے دکھاتا ہے جسے چاہے مٹاتا ہے
کہ تصویریں سبھی اب دست شیشہ گر میں رکھی ہیں

چراغوں کے محلے میں بہت تیزی سے چلتی ہے
یہ کیسی وحشتیں یا رب ہوا کے سر میں رکھی ہیں

ہمارے بعد آنے والوں کو کوئی تو سمجھائے
گئے وقتوں کی تاریخیں ہر اک پتھر میں رکھی ہیں

گلوں سے قربتیں ثابت فقط خوشبو سے ہوتی ہیں
قبائیں تو صبا کی قبضۂ صرصر میں رکھی ہیں

ہم اپنا ساز و ساماں لے تو آئے ہیں نئے گھر میں
مگر کچھ دستکیں اب بھی پرانے گھر میں رکھی ہیں

وہ راہ وصل کہ پیکر نہیں بینائی چلتی تھی
مری آنکھیں ترے دیدار کے منظر میں رکھی ہیں