EN हिंदी
شعاع زر نہ ملی رنگ شاعرانہ ملا | شیح شیری
shua-e-zar na mili rang-e-shairana mila

غزل

شعاع زر نہ ملی رنگ شاعرانہ ملا

حسن عزیز

;

شعاع زر نہ ملی رنگ شاعرانہ ملا
متاع نور سے کیا مجھ کو منصفانہ ملا

میں کس سے پوچھوں کہ اس سیل خاک سے باہر
کسے نکلنا نہ تھا کس کو راستہ نہ ملا

کہیں دکھائی نہ دی انجم دعا کی چمک
گھنے اندھیرے میں اک ہاتھ بھی اٹھا نہ ملا

بھٹک رہا ہوں میں اس دشت سنگ میں کب سے
ابھی تلک تو در آئینہ کھلا نہ ملا

جلائے پھرتا رہا مشعل تجسس میں
مگر سراغ کہیں کھوئی شام کا نہ ملا

اگلتا ہوگا کبھی سونا چاندی خطۂ دل
مجھے تو ایک بھی سکہ یہاں پڑا نہ ملا

نواح جاں میں وہ طوفان حبس تھا کہ حسنؔ
ہوا تو کیا کہ کہیں ہوا نہ ملا