EN हिंदी
شورش سے چشم تر کی زبس غرق آب ہوں | شیح شیری
shorish se chashm-e-tar ki zi-bas gharq-e-ab hun

غزل

شورش سے چشم تر کی زبس غرق آب ہوں

ولی اللہ محب

;

شورش سے چشم تر کی زبس غرق آب ہوں
دن رات بحر غم میں برنگ حباب ہوں

یہ دور اب تو ہے کہ رقیبوں کی بزم میں
تو مست ہو شراب سے اور میں کباب ہوں

مجھ خوں گرفتہ پر مرے قاتل کمر نہ باندھ
میں آپ اپنے قتل کا خواہاں شتاب ہوں

ہر صبح و شام باغ میں صحرا میں جوں نسیم
اس گل کی جستجو کی ہوس پر خراب ہوں

حیرت سے اس کو دیکھتے ہیں مثل آئنہ
افشائے درد دل سے کھڑا بے جواب ہوں

آگاہ ہے خدا ہی محبؔ روز کس لئے
نظروں میں ان بتاں کی محل عتاب ہوں