EN हिंदी
شورش پیہم بھی ہے افسردگئ دل بھی ہے | شیح شیری
shorish-e-paiham bhi hai afsurdagi-e-dil bhi hai

غزل

شورش پیہم بھی ہے افسردگئ دل بھی ہے

راہی شہابی

;

شورش پیہم بھی ہے افسردگئ دل بھی ہے
زندگی بہتا ہوا دھارا بھی ہے ساحل بھی ہے

قیس کی نظروں سے کوئی دیکھنے والا تو ہو
نجد میں لیلیٰ بھی ہے جلوے بھی ہیں محمل بھی ہے

قصۂ دار و رسن یا قصہ گیسو و قد
کچھ تو چھیڑو وقت بھی ہے رنگ پر محفل بھی ہے

کیا کرے پامال غم اک یاد ماضی ہی نہیں
حال کی بھی تلخیاں ہیں فکر‌ مستقبل بھی ہے

ہے ادھر طوفان دامن گیر راہیؔ کیا کروں
منتظر میرا ادھر کوئی لب ساحل بھی ہے