EN हिंदी
شورش حرف ہے ایاغ میں کچھ | شیح شیری
shorish-e-harf hai ayagh mein kuchh

غزل

شورش حرف ہے ایاغ میں کچھ

قمر عباس قمر

;

شورش حرف ہے ایاغ میں کچھ
لکھ قلم منزل بلاغ میں کچھ

دیکھے جاتا ہے وہ قدم کے نشاں
مل گیا ہے اسے سراغ میں کچھ

آفتاب اور یہ سیہ خانہ
تو نے دیکھا ہے دل کے داغ میں کچھ

ساری دنیا کو مار دی ٹھوکر
آ گیا تھا مرے دماغ میں کچھ

ذکر باغ نعیم ہے واللہ
لطف آنے لگا فراغ میں کچھ

بجھ رہا ہے افق پہ اب سورج
آپ رکھ دیجیے چراغ میں کچھ

اے قمرؔ آنکھ سے اتر دل میں
ضو فشانی ہو دل کے باغ میں کچھ