شورش حرف ہے ایاغ میں کچھ
لکھ قلم منزل بلاغ میں کچھ
دیکھے جاتا ہے وہ قدم کے نشاں
مل گیا ہے اسے سراغ میں کچھ
آفتاب اور یہ سیہ خانہ
تو نے دیکھا ہے دل کے داغ میں کچھ
ساری دنیا کو مار دی ٹھوکر
آ گیا تھا مرے دماغ میں کچھ
ذکر باغ نعیم ہے واللہ
لطف آنے لگا فراغ میں کچھ
بجھ رہا ہے افق پہ اب سورج
آپ رکھ دیجیے چراغ میں کچھ
اے قمرؔ آنکھ سے اتر دل میں
ضو فشانی ہو دل کے باغ میں کچھ

غزل
شورش حرف ہے ایاغ میں کچھ
قمر عباس قمر