شور سا ایک ہر اک سمت بپا لگتا ہے
وہ خموشی ہے کہ لمحہ بھی صدا لگتا ہے
کتنا ساکت نظر آتا ہے ہواؤں کا بدن
شاخ پر پھول بھی پتھرایا ہوا لگتا ہے
چیخ اٹھتی ہوئی ہر گھر سے نظر آتی ہے
ہر مکاں شہر کا آسیب زدہ لگتا ہے
آنکھ ہر راہ سے چپکی ہی چلی جاتی ہے
دل کو ہر موڑ پہ کچھ کھویا ہوا لگتا ہے
کتنا حاسد ہوں کہ اک تو ہی مرا اپنا ہے
اور تو ٹھیک سے ہنستا بھی برا لگتا ہے
میرے احساس نے ساون میں گنوائی ہے نظر
مجھ کو سوکھا ہوا جنگل بھی ہرا لگتا ہے
غزل
شور سا ایک ہر اک سمت بپا لگتا ہے
عدیم ہاشمی