شور دریا ہے کہانی میری
پانی اس کا ہے روانی میری
کچھ زیادہ ہی بھلی لگتی ہے
مجھ کو تصویر پرانی میری
جب بھی ابھرا ترا مہتاب خیال
کھل اٹھی رات کی رانی میری
بڑھ کے سینے سے لگا لیتا ہوں
جیسے ہر غم ہو نشانی میری
مہرباں مجھ پہ ہے اک شاخ گلاب
کیسے مہکے نہ جوانی میری
پھر ترے ذکر کی سرسوں پھولی
پھر غزل ہو گئی دھانی میری
کچھ تو اعمال برے تھے اپنے
کچھ ستاروں نے نہ مانی میری
لکھی جائے گی ترے برف کے نام
جو تمنا ہوئی پانی میری
تم نے جو بھی کہا میں نے مانا
تم نے اک بات نہ مانی میری
مختصر بات تھی جلدی بھی تھی کچھ
اس پہ کچھ زود بیانی میری
غزل
شور دریا ہے کہانی میری
باقر نقوی