شوخ تھے رنگ ہر اک دور میں افسانوں کے
دل دھڑکتے ہی رہے آس میں انسانوں کے
علم نے خیر نہ چاہی کبھی انسانوں کی
ذرے برباد یونہی تو نہیں ویرانوں کے
راہیں شہروں سے گزرتی رہیں ویرانوں کی
نقش ملتے رہے کعبے میں صنم خانوں کے
زندگی والہ و شیدا رہی فرزانوں کی
نام روشن ہوئے ہر دور میں دیوانوں کے
مریمی مورد تہمت رہی ارمانوں کی
ٹکڑے اک دفتر الزام ہیں دامانوں کے
فکر سب کو ہے رفو کے لیے سامانوں کی
پوچھتا کوئی نہیں حال گریبانوں کے
قدر کچھ کم تو نہیں اب بھی تن آسانوں کی
روز و شب آج بھی بھاری ہیں گراں جانوں کے
غزل
شوخ تھے رنگ ہر اک دور میں افسانوں کے
مختار صدیقی