EN हिंदी
شوخ و گستاخ جب انداز صبا ہوتا ہے | شیح شیری
shoKH-o-gustaKH jab andaz-e-saba hota hai

غزل

شوخ و گستاخ جب انداز صبا ہوتا ہے

خالد فتح پوری

;

شوخ و گستاخ جب انداز صبا ہوتا ہے
تب کہیں جا کے حسیں رنگ قبا ہوتا ہے

رنگ بھرنے کی ہیں باتیں سبھی افسانے میں
عشق میں کون بھلا کس سے جدا ہوتا ہے

جب دہکتے ہوئے ہونٹوں کا تصور ابھرے
دل میں سویا ہوا ہر زخم ہرا ہوتا ہے

اس سے کیا کہئے سر راہ کوئی بات کبھی
گر میں مل جاؤں مجھے ڈھونڈ رہا ہوتا ہے

علم والو یہ ذرا پڑھ کے بتاؤ مجھ کو
کیا رخ گل پہ یہ شبنم سے لکھا ہوتا ہے

پھر خطا پوچھ لی تم نے تو سزا سے پہلے
ایسی باتوں سے ہی خالدؔ وہ خفا ہوتا ہے