شوخ و گستاخ جب انداز صبا ہوتا ہے
تب کہیں جا کے حسیں رنگ قبا ہوتا ہے
رنگ بھرنے کی ہیں باتیں سبھی افسانے میں
عشق میں کون بھلا کس سے جدا ہوتا ہے
جب دہکتے ہوئے ہونٹوں کا تصور ابھرے
دل میں سویا ہوا ہر زخم ہرا ہوتا ہے
اس سے کیا کہئے سر راہ کوئی بات کبھی
گر میں مل جاؤں مجھے ڈھونڈ رہا ہوتا ہے
علم والو یہ ذرا پڑھ کے بتاؤ مجھ کو
کیا رخ گل پہ یہ شبنم سے لکھا ہوتا ہے
پھر خطا پوچھ لی تم نے تو سزا سے پہلے
ایسی باتوں سے ہی خالدؔ وہ خفا ہوتا ہے

غزل
شوخ و گستاخ جب انداز صبا ہوتا ہے
خالد فتح پوری