EN हिंदी
شہرت طرز فغاں عام ہوئی جاتی ہے | شیح شیری
shohrat-e-tarz-e-fughan aam hui jati hai

غزل

شہرت طرز فغاں عام ہوئی جاتی ہے

فگار اناوی

;

شہرت طرز فغاں عام ہوئی جاتی ہے
کوشش ضبط بھی ناکام ہوئی جاتی ہے

مست ہیں اور طلب جام ہوئی جاتی ہے
بے خودی ہوش کا پیغام ہوئی جاتی ہے

مسکراتا ہے حسیں پردۂ گلشن میں کوئی
اور کلی مفت میں بدنام ہوئی جاتی ہے

قید میں بھی ہے اسیروں کا وہی جوش عمل
مشق پرواز تہ دام ہوئی جاتی ہے

توڑ کر دل نگہ مست نہ پھیر اے ساقی
بزم کی بزم ہی بے جام ہوئی جاتی ہے

لب جو کھولے تو گلستاں میں کلی کون کہے
چپ بھی رہتی ہے تو بدنام ہوئی جاتی ہے

مجھ کو لے جائے گی منزل پہ مری صبح یقیں
لاکھ رستے میں مجھے شام ہوئی جاتی ہے

ناوک اندازیٔ جاناں کا اثر ہے کہ فگارؔ
ایک دنیا مری ہم نام ہوئی جاتی ہے