EN हिंदी
شکوہ نہیں ہے اس کا کہ تم نے بھلا دیا | شیح شیری
shikwa nahin hai is ka ki tumne bhula diya

غزل

شکوہ نہیں ہے اس کا کہ تم نے بھلا دیا

عشرت کرتپوری

;

شکوہ نہیں ہے اس کا کہ تم نے بھلا دیا
اچھا کیا کہ راہ کا پتھر ہٹا دیا

غم کو نشاط زیست کا عنواں بنا دیا
اس نے مری وفا کا عجب سا صلہ دیا

یوں ہنس کے اس نے توڑ دیا رشتۂ امید
جیسے کسی نے ریت پہ لکھا مٹا دیا

دنیا کی کم نگاہی کے شکوے کے ساتھ ساتھ
یہ سوچئے کہ آپ نے دنیا کو کیا دیا

کچھ ہم ہی شب گزیدہ اجالوں سے ڈر گئے
دنیا نے تو ادب سے ہمیں راستہ دیا

میں وہ چراغ‌ بزم تمنا ہوں دوستو
جس کو سحر سے پہلے ہوا نے بجھا دیا