شکوہ نہیں ہے اس کا کہ تم نے بھلا دیا
اچھا کیا کہ راہ کا پتھر ہٹا دیا
غم کو نشاط زیست کا عنواں بنا دیا
اس نے مری وفا کا عجب سا صلہ دیا
یوں ہنس کے اس نے توڑ دیا رشتۂ امید
جیسے کسی نے ریت پہ لکھا مٹا دیا
دنیا کی کم نگاہی کے شکوے کے ساتھ ساتھ
یہ سوچئے کہ آپ نے دنیا کو کیا دیا
کچھ ہم ہی شب گزیدہ اجالوں سے ڈر گئے
دنیا نے تو ادب سے ہمیں راستہ دیا
میں وہ چراغ بزم تمنا ہوں دوستو
جس کو سحر سے پہلے ہوا نے بجھا دیا

غزل
شکوہ نہیں ہے اس کا کہ تم نے بھلا دیا
عشرت کرتپوری