شکوہ نہ بخت سے ہے نے آسماں سے مجھ کو
پہنچی جو کچھ اذیت اپنے گماں سے مجھ کو
قاصد کہے تو ہے تو پوچھے تھا حال تیرا
تصدیق اس کی لیکن ہووے کہاں سے مجھ کو
عاشق نہ تھا میں بلبل کچھ گل کے رنگ و بو کا
اک انس ہو گیا تھا اس گلستاں سے مجھ کو
جاتا ہوں جس جگہ اب واں خانماں ہے میرا
کھویا ہے اے فلک تیں گو خانماں سے مجھ کو
با وصف بے کمالی عزت طلب ہوں قائمؔ
درخور نہ ہو سو کیوں کر اہل جہاں سے مجھ کو

غزل
شکوہ نہ بخت سے ہے نے آسماں سے مجھ کو
قائم چاندپوری