EN हिंदी
شکوہ کرتے ہیں زباں سے نہ گلا کرتے ہیں | شیح شیری
shikwa karte hain zaban se na gila karte hain

غزل

شکوہ کرتے ہیں زباں سے نہ گلا کرتے ہیں

حفیظ جونپوری

;

شکوہ کرتے ہیں زباں سے نہ گلا کرتے ہیں
تم سلامت رہو ہم تو یہ دعا کرتے ہیں

پھر مرے دل کے پھنسانے کی ہوئی ہے تدبیر
پھر نئے سر سے وہ پیمان وفا کرتے ہیں

تم مجھے ہاتھ اٹھا کر اس ادا سے کوسو
دیکھنے والے یہ سمجھیں کہ دعا کرتے ہیں

ان حسینوں کا ہے دنیا سے نرالا انداز
شوخیاں بزم میں خلوت میں حیا کرتے ہیں

حشر کا ذکر نہ کر اس کی گلی میں واعظ
ایسے ہنگامے یہاں روز ہوا کرتے ہیں

لاگ ہے ہم سے عدو کو تو عدو سے ہمیں رشک
ایک ہی آگ میں ہم دونوں جلا کرتے ہیں

ان کا شکوہ نہ رقیبوں کی شکایت ہے حفیظؔ
صرف ہم اپنے مقدر کا گلا کرتے ہیں