EN हिंदी
شکوہ بن کر فغاں سے اٹھتا ہے | شیح شیری
shikwa ban kar fughan se uThta hai

غزل

شکوہ بن کر فغاں سے اٹھتا ہے

محفوظ اثر

;

شکوہ بن کر فغاں سے اٹھتا ہے
شعلۂ غم زباں سے اٹھتا ہے

پھر جلا آشیاں کوئی شاید
پھر دھواں گلستاں سے اٹھتا ہے

ٹوٹ جاتا ہے سلسلہ لے کا
جب کوئی درمیاں سے اٹھتا ہے

ٹھہرے پانی میں کچھ نہیں ہوتا
شور آب رواں سے اٹھتا ہے

سر میں سودائے بندگی ہے اثرؔ
کون اس آستاں سے اٹھتا ہے