شکوہ بن کر فغاں سے اٹھتا ہے
شعلۂ غم زباں سے اٹھتا ہے
پھر جلا آشیاں کوئی شاید
پھر دھواں گلستاں سے اٹھتا ہے
ٹوٹ جاتا ہے سلسلہ لے کا
جب کوئی درمیاں سے اٹھتا ہے
ٹھہرے پانی میں کچھ نہیں ہوتا
شور آب رواں سے اٹھتا ہے
سر میں سودائے بندگی ہے اثرؔ
کون اس آستاں سے اٹھتا ہے
غزل
شکوہ بن کر فغاں سے اٹھتا ہے
محفوظ اثر