EN हिंदी
شکوہ ذات سے دشمن کا لشکر کانپ جاتا ہے | شیح شیری
shikoh-e-zat se dushman ka lashkar kanp jata hai

غزل

شکوہ ذات سے دشمن کا لشکر کانپ جاتا ہے

شایان قریشی

;

شکوہ ذات سے دشمن کا لشکر کانپ جاتا ہے
اگر کردار پختہ ہو ستم گر کانپ جاتا ہے

تصور میں ابھرتا ہے کبھی جب قبر کا منظر
اچٹ جاتی ہیں نیندیں اور بستر کانپ جاتا ہے

ملے ہیں زخم کچھ ایسے مجھے اپنے رفیقوں سے
کئی برسوں کے کچھ رشتوں کا محور کانپ جاتا ہے

کسی بھی جنگ میں کوئی شہادت کی خبر سن کر
سسک اٹھتے ہیں کنگن اور زیور کانپ جاتا ہے

وہ حیدر مرتضیٰ بھی ہیں وہی شیر خدا بھی ہیں
وہی اک نام سن کے اب بھی خیبر کانپ جاتا ہے

چلے آتے ہیں کچھ یوں بے سلیقہ لوگ میخانے
صراحی رونے لگتی ہے تو ساغر کانپ جاتا ہے

وہی بے خوف رہتا ہے سدا شایانؔ دنیا میں
خدا کے خوف سے دل جس کا اکثر کانپ جاتا ہے