شکستہ پائیاں ہیں جان و دل بھی چور ہیں ساقی
حمیت کے کلیجے میں بڑے ناسور ہیں ساقی
ادھر غیرت کی خشکی ہے نہ گولر ہے نہ بیری ہے
مگر جس سمت چمچے ہیں ادھر انگور ہیں ساقی
تقرب ہائے افسر ہے نہ عیش مرغ و ماہی ہے
ابھی دفتر کے آنے پر بھی ہم مجبور ہیں ساقی
سبھی معصوم و صادق لائق تعزیر ہو بیٹھے
تری سرکار کے کیسے عجب دستور ہیں ساقی
خودی کی پاسداری میں سکون جاں گنوا بیٹھے
بیاباں میں بھٹکتے ہیں چمن سے دور ہیں ساقی
سیہ حلقے ہیں آنکھوں میں سیاہی رخ پہ بکھری ہے
وفور درد سے گھر میں سبھی لنگور ہیں ساقی
غزل
شکستہ پائیاں ہیں جان و دل بھی چور ہیں ساقی
ضیاء الرحمن اعظمی