شکستہ لمحوں کا تو وقت کو حساب نہ دے
ہوا کے ہاتھ میں بکھری ہوئی کتاب نہ دے
سلگ رہا ہے بدن دھوپ کی تمازت سے
بھڑک اٹھوں گا مجھے چشمۂ سراب نہ دے
وہ رنگ شب ہے کہ دھندلا کے رہ گئیں آنکھیں
ان آئنوں کو ابھی کوئی عکس خواب نہ دے
ترے وجود سے باہر بھی ایک دنیا ہے
یوں اپنے آپ کو تنہائی کا عذاب نہ دے
میں زندگی کی صدا آگ بھی ہوں شبنم بھی
مرے دکھوں کو سمجھ یوں مجھے جواب نہ دے
گزر نہ دل کے بیاباں سے ابر کی صورت
سکوت دشت کو موجوں کا اضطراب نہ دے
مری حیات کا حامل ہیں زرد رو پتے
خزاں کا نقش ہوں تو مجھ کو آب و تاب نہ دے
نہ چھپ سکیں گی صداقت کی تلخیاں راشدؔ
برہنہ شکل کو الفاظ کی نقاب نہ دے

غزل
شکستہ لمحوں کا تو وقت کو حساب نہ دے
ممتاز راشد