شکستہ گھر میں کوئی چیز بھی نہیں پوری
کہیں ہوا تو کہیں روشنی نہیں پوری
میں تجھ کو دیکھ تو سکتا ہوں چھو نہیں سکتا
تو ہے مگر تری موجودگی نہیں پوری
انا سنبھالتے دل کھو دیا ہے میں نے وہیں
تمہارے سامنے سے واپسی نہیں پوری
میں سوچتا ہوں کہ اب کوزہ گر بدل ہی لوں
جو مل رہی ہے مجھے بہتری نہیں پوری
میں رو رہا ہوں مگر سانحہ بتاتا ہے
کہ اس کی آنکھ سے وابستگی نہیں پوری
کہیں تو ہو جہاں بچے ہی صرف رہتے ہوں
کسی علاقے میں بھی زندگی نہیں پوری
غزل
شکستہ گھر میں کوئی چیز بھی نہیں پوری
قاسم یعقوب