شکستہ دل کی خوشی دوستو خوشی تو نہ تھی
ہنسی پہ وقت کے اک طنز تھا ہنسی تو نہ تھی
تمام عمر جسے روشنی سمجھتے رہے
فریب چشم تمنا تھا روشنی تو نہ تھی
کسی کے بعد جو گزری کسی کی حسرت میں
وہ اک سزائے محبت تھی زندگی تو نہ تھی
جسے زمانہ نے گل کی ہنسی کا نام دیا
وہ ایک کیفیت کرب تھی ہنسی تو نہ تھی
میں ترک رسم وفا بے وفا سے کیوں کرتا
تھا اختلاف خیالات دشمنی تو نہ تھی
ہنسی ہنسی میں مرے دل کو چھیننے والے
یہ انتقام محبت تھی دلبری تو نہ تھی
ملی تھی راہ ہوس میں جو روشنی ساقیؔ
وہ ایک ظلمت رہزن تھی روشنی تو نہ تھی
غزل
شکستہ دل کی خوشی دوستو خوشی تو نہ تھی
اولاد علی رضوی