شکستہ چھت نہ سہی آسمان رہنے دے
کڑا ہے وقت کوئی سائبان رہنے دے
کچھ اور تنگ نہ ہو جائے جنگلوں کا حصار
فصیل شہر ابھی درمیان رہنے دے
قریب شہر پہنچ کر غبار راہ نہ جھاڑ
تھکے بدن پہ سفر کا نشان رہنے دے
نہ چھین مجھ سے مرے روز و شب کے ہنگامے
میں جی رہا ہوں مجھے یہ گمان رہنے دے
بھڑک اٹھے نہ سمندر کی تشنگی راشدؔ
مرا لہو بھی سر بادبان رہنے دے

غزل
شکستہ چھت نہ سہی آسمان رہنے دے
ممتاز راشد