شکست و فتح مقابل سے بے نیاز تو ہے
بہ فیض دار و رسن عشق سرفراز تو ہے
اسی سے نکلیں گے نغمات زندگی پرور
شکستہ ہی وہ سہی دل بھی ایک ساز تو ہے
ہزار قسمت و ماحول ذمے دار سہی
مری تباہی سے ان کا بھی ساز باز تو ہے
غرور حسن سلامت مگر یہ کیا کم ہے
ہمارا دل بھی حریف نگاہ ناز تو ہے
ہوا ہے فاش جہاں پر زباں پہ آئے بغیر
دل و نگاہ کے مابین کوئی راز تو ہے
عطائے بادہ کے انکار سے یہ بھید کھلا
کہ میکشوں میں ترے پاس امتیاز تو ہے
مجھے تلاش مسرت کی کیا ضرورت ہے
خوشی یہ کم نہیں دل میرا غم نواز تو ہے
نہیں سعیدؔ مرے پاس شوکت الفاظ
مری غزل میں مگر قلب کا گداز تو ہے

غزل
شکست و فتح مقابل سے بے نیاز تو ہے
جے پی سعید