شکن شکن تری یادیں ہیں میرے بستر کی
غزل کے شعر نہیں کروٹیں ہیں شب بھر کی
پھر آئی رات مری سانس رکتی جاتی ہے
سرکتی آتی ہیں دیواریں پھر مرے گھر کی
مجھے تو کرنی پڑی آبیاری صحرا
مگر نصیب میں تھی تشنگی سمندر کی
یہ جمع و خرچ زبانی ہے نقد شعر و سخن
مگر یہی تو کمائی ہے زندگی بھر کی
اسی نے بخشی ہے رنگینئ حیات مجھے
کبھی کبھی تو اسی نے حیات دوبھر کی
ردائے رنگ سے چھنتا ہوا بدن تیرا
یہ چاندنی کہ تمازت ہے تیرے پیکر کی
کتاب حسن ہے تو مل کھلی کتاب کی طرح
یہی کتاب تو مر مر کے میں نے ازبر کی
صنم کی آس لیے نوک تیشہ بوتا ہوں
میں کب سے فصل اگاتا رہا ہوں پتھر کی
نباہ کرتا ہوں دنیا سے اس طرح اے شاذؔ
کہ جیسے دوستی ہو آستین و خنجر کی
غزل
شکن شکن تری یادیں ہیں میرے بستر کی
شاذ تمکنت