EN हिंदी
شکن اندر شکن یاد آ گیا ہے | شیح شیری
shikan-andar-shikan yaad aa gaya hai

غزل

شکن اندر شکن یاد آ گیا ہے

بشری زیدی

;

شکن اندر شکن یاد آ گیا ہے
وصال تشنہ تن یاد آ گیا ہے

یہ دشت آرزو کی بے پناہی
گھنے سپنوں کا بن یاد آ گیا ہے

مرے رستے میں چٹانیں بہت ہیں
مجھے اب کوہ کن یاد آ گیا ہے

چراغ عریاں تن کو بھی بالآخر
ہوا کا پیرہن یاد آ گیا ہے

برستی جا رہیں بے تحاشا
ان آنکھوں کو وطن یاد آ گیا ہے

یہ کیسا خواب ہے آنکھوں میں بشریٰؔ
یہ کیا دیوانہ پن یاد آ گیا ہے