EN हिंदी
شکاری نے رکھا ٹھکانہ بلند | شیح شیری
shikari ne rakkha Thikana buland

غزل

شکاری نے رکھا ٹھکانہ بلند

قاضی حسن رضا

;

شکاری نے رکھا ٹھکانہ بلند
ہدف پست قامت نشانہ بلند

یہاں ظلم کی ہیں کمندیں دراز
کہاں تک کریں آشیانہ بلند

ترے سامنے سر بہ سجدہ ہیں لوگ
مرا نام ہے غائبانہ بلند

سمجھ لیجئے تلخ گزرا ہے دن
اگر ہے نوائے شبانہ بلند

مجھے بولنے کی اجازت نہیں
مری ذات نیچی زمانہ بلند

بڑی تیز رفتار ہے عمر کی
خدارا نہ کر تازیانہ بلند

مری چیخ بھی کھو گئی ہے رضاؔ
ہوا ہر طرف سے ترانہ بلند