شکاری نے رکھا ٹھکانہ بلند
ہدف پست قامت نشانہ بلند
یہاں ظلم کی ہیں کمندیں دراز
کہاں تک کریں آشیانہ بلند
ترے سامنے سر بہ سجدہ ہیں لوگ
مرا نام ہے غائبانہ بلند
سمجھ لیجئے تلخ گزرا ہے دن
اگر ہے نوائے شبانہ بلند
مجھے بولنے کی اجازت نہیں
مری ذات نیچی زمانہ بلند
بڑی تیز رفتار ہے عمر کی
خدارا نہ کر تازیانہ بلند
مری چیخ بھی کھو گئی ہے رضاؔ
ہوا ہر طرف سے ترانہ بلند
غزل
شکاری نے رکھا ٹھکانہ بلند
قاضی حسن رضا