شکار ہو گیا وہ خود ہی اس زمانے کا
جواز ڈھونڈ رہا تھا مجھے مٹانے کا
یہ امتحان فن آذری سے ہے منسوب
تراش لیجئے پتھر کوئی ٹھکانے کا
کبھی رہا تو نہیں گردش فلک کا ساتھ
کہاں سے سیکھا ہے تم نے ہنر ستانے کا
مرے خلوص کا جس کو نہ اعتبار آیا
فریب کھاتا رہا عمر بھر زمانے کا
جو اہل دل ہیں وہی آزمائے جاتے ہیں
عجیب رنگ ہے قدرت کے کارخانے کا
جو اعلیٰ ظرف ہیں معلوم ہے انہیں شاہینؔ
سلیقہ چاہئے انساں کو غم اٹھانے کا
غزل
شکار ہو گیا وہ خود ہی اس زمانے کا
سلمیٰ شاہین