EN हिंदी
شیشے سے زیادہ نازک تھا یہ شیشۂ دل جو ٹوٹ گیا | شیح شیری
shishe se ziyaada nazuk tha ye shisha-e-dil jo TuT gaya

غزل

شیشے سے زیادہ نازک تھا یہ شیشۂ دل جو ٹوٹ گیا

دانش فراہی

;

شیشے سے زیادہ نازک تھا یہ شیشۂ دل جو ٹوٹ گیا
مت پوچھو کہ مجھ پر کیا گزری جب ہاتھ سے ساغر چھوٹ گیا

تاریکئ محفل کا شکوہ تم کرتے ہو اے دیوانو کیوں
خود شمع بجھا دی ہے تم نے خود بخت تمہارا پھوٹ گیا

ساقی کی نظر اٹھتی ہی نہیں کیوں بادہ و ساغر کی جانب
سرمایۂ مے خانہ آ کر کیا کوئی لٹیرا لوٹ گیا

محرومیٔ قسمت کا عالم کیا پوچھ رہے ہو تم مجھ سے
منزل تو ابھی ہے دور بہت اور اک اک ساتھی چھوٹ گیا

اٹھتا ہے دانشؔ دل سے دھواں آنکھوں سے ٹپکتے ہیں آنسو
کیا آتش غم دینے لگی لو کیا دل کا پھپھولا پھوٹ گیا