شیشے کے مقدر میں بدل کیوں نہیں ہوتا
ان پتھروں کی آنکھ میں جل کیوں نہیں ہوتا
قدرت کے اصولوں میں بدل کیوں نہیں ہوتا
جو آج ہوا ہے وہی کل کیوں نہیں ہوتا
ہر جھیل میں پانی ہے ہر اک جھیل میں لہریں
پھر سب کے مقدر میں کنول کیوں نہیں ہوتا
جب اس نے ہی دنیا کا یہ دیوان رچا ہے
ہر آدمی پیاری سی غزل کیوں نہیں ہوتا
ہر بار نہ ملنے کی قسم کھا کے ملے ہم
اپنے ہی ارادوں پہ عمل کیوں نہیں ہوتا
ہر گاؤں میں ممتاز جنم کیوں نہیں لیتی
ہر موڑ پہ اک تاج محل کیوں نہیں ہوتا
غزل
شیشے کے مقدر میں بدل کیوں نہیں ہوتا
ہستی مل ہستی