شیشے کا آدمی ہوں مری زندگی ہے کیا
پتھر ہیں سب کے ہاتھ میں مجھ کو کمی ہے کیا
اب شہر میں وہ پھول سے چہرے نہیں رہے
کیسی لگی ہے آگ یہ بستی ہوئی ہے کیا
میں جل رہا ہوں اور کوئی دیکھتا نہیں
آنکھیں ہیں سب کے پاس مگر بے بسی ہے کیا
تم دوست ہو تو مجھ سے ذرا دشمنی کرو
کچھ تلخیاں نہ ہوں تو بھلا دوستی ہے کیا
اے گردش تلاش نہ منزل نہ راستہ
میرا جنوں ہے کیا مری آوارگی ہے کیا
خوش ہو کے ہر فریب زمانے کا کھا لیا
یہ دل ہی جانتا ہے کہ دل پر بنی ہے کیا
دو بول دل کے ہیں جو ہر اک دل کو چھو سکیں
اے اشکؔ ورنہ شعر ہیں کیا شاعری ہے کیا
غزل
شیشے کا آدمی ہوں مری زندگی ہے کیا
ابراہیم اشکؔ