EN हिंदी
شیشہ لب سے جدا نہیں ہوتا | شیح شیری
shisha lab se juda nahin hota

غزل

شیشہ لب سے جدا نہیں ہوتا

عزیز وارثی

;

شیشہ لب سے جدا نہیں ہوتا
نشہ پھر بھی سوا نہیں ہوتا

درد دل جب سوا نہیں ہوتا
عشق میں کچھ مزا نہیں ہوتا

ہر نظر سرمگیں تو ہوتی ہے
ہر حسیں دل ربا نہیں ہوتا

ہاں یہ دنیا برا بناتی ہے
ورنہ انساں برا نہیں ہوتا

عصر حاضر ہے جب قیامت خیز
حشر پھر کیوں بپا نہیں ہوتا

پارسا رند ہو تو سکتا ہے
رند کیوں پارسا نہیں ہوتا

شعر کے فن میں اور بیاں میں عزیزؔ
مومنؔ اب دوسرا نہیں ہوتا