شدت کرب سے کراہ اٹھا
جب اٹھا درد بے پناہ اٹھا
میرے آگے چلا نہ زور طلسم
میرے پیچھے غبار راہ اٹھا
بے سبب رات بھر چراغ جلے
میں دھواں بن کے خواہ مخواہ اٹھا
دل بغاوت پہ کب تھا آمادہ
سر تھا جو پیش بادشاہ اٹھا
چھوڑ دے آج شرم کا دامن
اے پری زاد اب نگاہ اٹھا
مجھ سے قائم تھی بزم کی رونق
میں اٹھا فرش خانقاہ اٹھا
اے جہانگیر اپنا عدل تو دیکھ
کوئی بھر کر یہاں سے آہ اٹھا
غزل
شدت کرب سے کراہ اٹھا
صالح ندیم