شیوۂ ضبط کو رسوا دل ناشاد نہ کر
لب خاموش کو آلودۂ فریاد نہ کر
دل ہے گنجینۂ صد گوہر اسرار وفا
اے نگاہ غلط انداز اسے برباد نہ کر
صفحۂ دل سے مٹا عظمت ماضی کے نقوش
ہیں یہ بھولے ہوئے افسانے انہیں یاد نہ کر
شیوۂ جور کو رکھ اہل وفا تک محدود
عام فیض خلش درد خدا داد نہ کر
رکھ نظر وسعت دامان کرم پر اپنے
تو خطا پوش ہے مخفیؔ کی خطا یاد نہ کر
غزل
شیوۂ ضبط کو رسوا دل ناشاد نہ کر
رسول جہاں بیگم مخفی بدایونی