شعر کہنے کی طبیعت نہ رہی
جس سے آمد تھی وہ صورت نہ رہی
اس کی دہلیز سے اٹھ جاؤں مگر
لوگ سوچیں گے محبت نہ رہی
اب ملا عدل، گیا دور شباب
منصفی تیری بھی وقعت نہ رہی
وقت کی دوڑ میں رکنا تھا کٹھن
سانس لینے کی بھی فرصت نہ رہی
وقت دیدار عجب حکم ہوا
ہوش کھونے کی اجازت نہ رہی
تم سے جذبات تھے جب تم ہی نہیں
پھر زمانے سے شکایت نہ رہی
میں نکل آؤں بیاباں سے اگر
شہرہ ہو جائے گا وحشت نہ رہی
بھیڑ میں ڈھونڈیں کہاں قیس کو اب
وہ جو پہچان تھی وحشت نہ رہی
دور رفتہ کے نمونے ہو سلامؔ
اب تکلف کی ضرورت نہ رہی
غزل
شعر کہنے کی طبیعت نہ رہی
عبد السلام