شعر اچھا ہو تو پھر داد ملا کرتی ہے
کہیں آواز کتابوں میں چھپا کرتی ہے
ایک لمحہ بھی فرشتہ نہیں ہونے دیتی
کوئی تو شے ہے جو باطن میں خطا کرتی ہے
چین سے مجھ کو ترا حسن نہ جینے دے گا
دل کی بستی ہے کہ ہر روز لٹا کرتی ہے
پیاس کیسی تھی بہتر کی تمہیں کیا معلوم
کیوں فرات آج بھی رو رو کے بہا کرتی ہے
تم وفا کرتے رہو شہر طلب میں مظہرؔ
کرنے دو اس کو یہ دنیا جو جفا کرتی ہے
غزل
شعر اچھا ہو تو پھر داد ملا کرتی ہے
مظہر عباس