شیخ نے ناقوس کے سر میں جو خود ہی تان لی
پھر تو یاروں نے بھجن گانے کی کھل کر ٹھان لی
مدتوں قائم رہیں گی اب دلوں میں گرمیاں
میں نے فوٹو لے لیا اس نے نظر پہچان لی
رو رہے ہیں دوست میری لاش پر بے اختیار
یہ نہیں دریافت کرتے کس نے اس کی جان لی
میں تو انجن کی گلے بازی کا قائل ہو گیا
رہ گئے نغمے حدی خوانوں کے ایسی تان لی
حضرت اکبرؔ کے استقلال کا ہوں معترف
تابہ مرگ اس پر رہے قائم جو دل میں ٹھان لی
غزل
شیخ نے ناقوس کے سر میں جو خود ہی تان لی
اکبر الہ آبادی