EN हिंदी
شوق سے ناکامی کی بدولت کوچۂ دل ہی چھوٹ گیا | شیح شیری
shauq se nakaami ki badaulat kucha-e-dil hi chhuT gaya

غزل

شوق سے ناکامی کی بدولت کوچۂ دل ہی چھوٹ گیا

فانی بدایونی

;

شوق سے ناکامی کی بدولت کوچۂ دل ہی چھوٹ گیا
ساری امیدیں ٹوٹ گئیں دل بیٹھ گیا جی چھوٹ گیا


فصل گل آئی یا اجل آئی کیوں در زنداں کھلتا ہے

کیا کوئی وحشی اور آ پہنچا یا کوئی قیدی چھوٹ گیا


لیجیے کیا دامن کی خبر اور دست جنوں کو کیا کہئے
اپنے ہی ہاتھ سے دل کا دامن مدت گزری چھوٹ گیا


منزل عشق پہ تنہا پہنچے کوئی تمنا ساتھ نہ تھی

تھک تھک کر اس راہ میں آخر اک اک ساتھی چھوٹ گیا


اس نے عدو کا سوگ کیا یاں اس سے وفا کی آس بندھی
داغ تمنا رنگ حنا کی دیکھا دیکھی چھوٹ گیا

فانیؔ ہم تو جیتے جی وہ میت ہیں بے گور و کفن
غربت جس کو راس نہ آئی اور وطن بھی چھوٹ گیا