EN हिंदी
شوق کا رنگ بجھ گیا یاد کے زخم بھر گئے | شیح شیری
shauq ka rang bujh gaya yaad ke zaKHm bhar gae

غزل

شوق کا رنگ بجھ گیا یاد کے زخم بھر گئے

جون ایلیا

;

شوق کا رنگ بجھ گیا یاد کے زخم بھر گئے
کیا مری فصل ہو چکی کیا مرے دن گزر گئے

رہ گزر خیال میں دوش بدوش تھے جو لوگ
وقت کی گرد باد میں جانے کہاں بکھر گئے

شام ہے کتنی بے تپاک شہر ہے کتنا سہم ناک
ہم نفسو! کہاں ہو تم جانے یہ سب کدھر گئے!

پاس حیات کا خیال ہم کو بہت برا لگا
پس بہ ہجوم معرکہ جان کے بے سپر گئے

میں تو صفوں کے درمیاں کب سے پڑا ہوں نیم جاں
میرے تمام جاں نثار میرے لیے تو مر گئے