شوق آوارہ یوں ہی خاک بسر جائے گا
چاند چپکے سے کسی گھر میں اتر جائے گا
اس کی صحبت بھی ہے اک خواب سرا میں رہنا
وہ جو چل دے گا تو یہ خواب بکھر جائے گا
وقت ہر زخم کا مرہم ہے پہ لازم تو نہیں
زخم جو اس نے دیا ہے کبھی بھر جائے گا
جنس تازہ کے خریدار پڑے ہیں ہر سو
کیسے بے کار مرا حرف ہنر جائے گا
سوچ لیجے کہ یہ ایام گزر جائیں گے
مطلع فکر بہر طور نکھر جائے گا
ناخدا کشتی میں سوراخ کیے جاتا ہے
ہم بھی ڈوبیں گے وہیں آپ جدھر جائے گا
شوق دیدار میں اس سرو رواں کے شاہدؔ
موسم گل مرے آنگن میں ٹھہر جائے گا
غزل
شوق آوارہ یوں ہی خاک بسر جائے گا
صدیق شاہد