شریفے کے درختوں میں چھپا گھر دیکھ لیتا ہوں
میں آنکھیں بند کر کے گھر کے اندر دیکھ لیتا ہوں
ادھر اس پار کیا ہے یہ کبھی سوچا نہیں میں نے
مگر میں روز کھڑکی سے سمندر دیکھ لیتا ہوں
سڑک پہ چلتے پھرتے دوڑتے لوگوں سے اکتا کر
کسی چھت پر مزے میں بیٹھے بندر دیکھ لیتا ہوں
یہ سچ ہے اپنی قسمت کوئی کیسے دیکھ سکتا ہے
مگر میں تاش کے پتے اٹھا کر دیکھ لیتا ہوں
گلی کوچوں میں چوراہوں پہ یا بس کی قطاروں میں
میں اس چپ چاپ سی لڑکی کو اکثر دیکھ لیتا ہوں
چلا جاؤں گا جیسے خود کو تنہا چھوڑ کر علویؔ
میں اپنے آپ کو راتوں میں اٹھ کر دیکھ لیتا ہوں
غزل
شریفے کے درختوں میں چھپا گھر دیکھ لیتا ہوں
محمد علوی