شرار عشق صدیوں کا سفر کرتا ہوا
بجھا مجھ میں مجھی کو بے خبر کرتا ہوا
رموز خاک باب مشتہر کرتا ہوا
یوں ہی آباد صحرائے ہنر کرتا ہوا
زمین جستجو گرد سفر کرتا ہوا
یہ مجھ میں کون ہے مجھ سے مفر کرتا ہوا
ابھی تک لہلہاتا ہے وہ سبزہ آنکھ میں
وہ موج گل کو معیار نظر کرتا ہوا
حریم شب میں خوں روتا ہوا ماہ تمام
نگار صبح قصہ مختصر کرتا ہوا
مری مٹی کو لے پہنچا دیار یار تک
غبار جاں طواف چشم تر کرتا ہوا
تکبر لے رہا ہے امتحاں پھر عزم کا
ستاروں کو مرے زیر اثر کرتا ہوا
فلک بوسی کی خواہش طائر وحشت کو تھی
اڑا ہے اپنی مٹی درگزر کرتا ہوا
غزل
شرار عشق صدیوں کا سفر کرتا ہوا
کبیر اجمل