شراب شہر میں نیلام ہو گئی ہوگی
عدالت آج بھی ناکام ہو گئی ہوگی
میں جس غزل میں ترا حسن لے کے آیا تھا
پرانی بات سہی عام ہو گئی ہوگی
میں چاند بھیج رہا ہوں کہ تم کو دیکھ آئے
تمہارے شہر میں اب شام ہو گئی ہوگی
اٹھا کے لایا تھا اک دیو داسی مندر سے
تو کیا وہ داخل اسلام ہو گئی ہوگی
یہ عشق کھیل نہیں ہے چھپن چھپائی کا
تو ایک بار تو بد نام ہو گئی ہوگی
غزل
شراب شہر میں نیلام ہو گئی ہوگی
طالب حسین طالب